Most Amazing Poetry by Nadia Sahar
GHAZAL NO 1 :
غزل
دردِ ہجراں کبھی تا دیر نہ ہونے دینا
بس مجھے راکھ کا تو ڈھیر نہ ہونے دینا
کوچ کر جاٸیں تری راہ کو تکنے والے
اس قدر بھی تو کبھی دیر نہ ہونے دینا
ہم گنہگار سہی تو ہے تجلی والا
میرے مالک کبھی اندھیر نہ ہونے دینا
سُکھ اتر آتے ہیں آنگن میں یہیں سے اکثر
کبھی ویراں کوٸ منڈیر نہ ہونے دینا
ساٸلوں کے لیے دامن کو کشادہ رکھنا
یعنی خالی کبھی چنگیر نہ ہونے دینا
ہے خدا بس ترے ہاتھوں میں سحر کی حرمت
پیش رکھنا مجھے تو زیر نہ ہونے دینا
نادیہ سحر
GHAZAL NO 2 :
شاید اس بار بھی دل میرا اکیلا رہ جاۓ
شہر میں ٹھہری رہوں ، گاٶں کا میلہ رہ جاۓ
میں نے کب چاہا تھا تو مجھ سے بچھڑ جاۓ کبھی
میں نے کب چاہا تھا یہ ہجر جھمیلا رہ جاۓ
سیج اجڑ جاۓ سنورنے سے بھی پہلے کوٸ
کہیں چمپا ، کہیں گیندا ، کہیں بیلا رہ جاۓ
نہ کوٸ خواب رہے میرا نہ یادیں میری
کاش خالی یہ تری زیست کا ٹھیلا رہ جاۓ
کیا غریبی سی غریبی ہے کہ عالم یہ ہے
کوچ در پیش ہو اور جیب میں دھیلا رہ جاۓ
دل کا یہ حال ہے یکدم ترے کھو جانے پر
جیسے میلے میں کوئ طفل اکیلا رہ جائے
روز دفناتی ہوں میں روگ پرانے اپنے
روز اک درد نیا اور نویلا رہ جاۓ
اشک اور قطرے میں تفریق تو واضح ہو سحر
درد اڑ جاۓ کہیں پانی کا ریلا رہ جاۓ
نادیہ سحر
GHAZAL NO 3 :
دل درد سے نڈھال ہے کچھ ایسی بات ہے
رنج و الم کا جال ہے کچھ ایسی بات ہے
یاگیلی لکڑیاں ہیں یا دل ہے سلگ رہا
ہرسانس پاٸمال ہے کچھ ایسی بات ہے
دکھ یہ ہے اب کسی پہ بھروسہ نہیں رہا
اس بات کا ملال ہے کچھ ایسی بات ہے
جب سے مقیم دل میں غمِ ہجر ہوگیا
دھڑکن بھی یرغمال ہے کچھ ایسی بات ہے
پت جھڑ بناچکی ہے شریکِ سفر مجھے
دکھ میرا ہم خیال ہے کچھ ایسی بات ہے
چلنا ہے پاپیادہ یونہی عمر بھر ہمیں
شانوں پہ غم کی شال ہے کچھ ایسی بات ہے
مانا کہ زندگی میں تری میں کہیں نہیں
پھر بھی ترا خیال ہے کچھ ایسی بات ہے
ہر چند اک گھٹن سی ہے سینے میں اے سحر
پھر بھی یہ دل بحال ہے کچھ ایسی بات ہے
نادیہ سحر
GHAZAL NO 4 :
سنوارتی رہی جس کو وہ گھر کسی کا تھا
دریچہ اور کسی کا تھا در کسی کا تھا
تمام عمر یہ محرومیاں رہیں دل میں
کہ جس میں رہتی رہی وہ نگر کسی کا تھا
نہ نیند آٸ نہ سونے کی ہم نے کی کوشش
کہ انتظار ہمیں رات بھر کسی کا تھا
قدم ملا کے قدم سے مرے وہ کیا چلتا
جو شخص پہلے سے ہی ہم سفر کسی کا تھا
ہمارے نقشِ قدم ڈھونڈتا رہا وہ کیوں
ہمارے پیچھے چلا کیوں اگر کسی کا تھا
نگاہِ دل تھی وہاں اتنی زور سے پیوست
وہ ایک راہ جہاں سے گزر کسی کا تھا
خطا ہماری ہی تھی آشیاں بنانے کی
ہمیں پتا تھا سحر وہ شجر کسی کا تھا
نادیہ سحر
Ghazal No 5 :
خیالوں سے تمھارے مل رہا ہے
کوٸ موسم دلوں میں کھل رہا ہے
تعلق اس سے بڑھ کر اور کیا ہو
تمھارے پاس میرا دل رہا ہے
ہماری آنکھ میں آنسو تمھارا
ستارا سا کوٸ جھلمل رہا ہے
رکھا ہے ہاتھ جب سے تم نے دل پر
پرانا زخم بھی اب سل رہا ہے
جو تم سے دور رہ کر مجھ پہ گزرا
وہی لمحہ بہت مشکل رہا ہے
وہی مونس مری تنہاٸ کا ہے
وہی تو رونقِ محفل رہا ہے
تو میری زیست میں شامل رہے گا
تو میری زیست میں شامل رہا ہے
تمھاری بے وفاٸ کا ہے تحفہ
ہماری آنکھ میں جو تل رہا ہے
رہا ہے ہم سفر تو ہی ہمارا
ہماری تو ہی تو منزل رہا ہے
سحر کی شال پر کوٸ ستارا
گلابوں کی طرح سے کھل رہا ہے
نادیہ سحر